اور ہم نے جس بستی میں بھی کوئی رسول بھیجا، اس کے باشندوں کو مالی اور جسمانی مصائب سے آزمایا کہ وہ رجوع کریں
7.95 ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ حَتَّىٰ عَفَوْا وَقَالُوا قَدْ مَسَّ آبَاءَنَا الضَّرَّاءُ وَالسَّرَّاءُ فَأَخَذْنَاهُمْ بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَپھر ہم نے دکھ کو سکھ سے بدل دیا یہاں تک کہ وہ پھلے پھولے اور کہنے لگے کہ دکھ اور سکھ تو ہمارے باپ دادوں کو بھی پہنچے ہیں۔ پھر ہم نے ان کو اچانک پکڑ لیا اور وہ اس کا کوئی گمان نہیں رکھتے تھے
7.96 وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَـٰكِنْ كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَاور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انھوں نے جھٹلایا تو ہم نے ان کی کرتوتوں کی پاداش میں ان کو پکڑ لیا
7.97 أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَىٰ أَنْ يَأْتِيَهُمْ بَأْسُنَا بَيَاتًا وَهُمْ نَائِمُونَتو کیا بستیوں والے نچنت رہ سکے اس بات سے کہ آ دھمکے ان پر ہمارا عذاب راتوں رات اور وہ سوئے پڑے ہوں
7.98 أَوَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَىٰ أَنْ يَأْتِيَهُمْ بَأْسُنَا ضُحًى وَهُمْ يَلْعَبُونَاور کیا بستیوں والے نچنت رہ سکے اس بات سے کہ ان پر آ دھمکے ہمارا عذاب دن دہاڑے اور وہ کھیل کود میں ہوں
7.99 أَفَأَمِنُوا مَكْرَ اللَّـهِ ۚ فَلَا يَأْمَنُ مَكْرَ اللَّـهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَتو کیا وہ اللہ کی تدبیر سے بچ سکے۔ تو یاد رکھو کہ خدا کی تدبیر سے وہی لوگ نچنت ہوتے ہیں جو نامراد ہونے والے ہوں
7.1 أَوَلَمْ يَهْدِ لِلَّذِينَ يَرِثُونَ الْأَرْضَ مِنْ بَعْدِ أَهْلِهَا أَنْ لَوْ نَشَاءُ أَصَبْنَاهُمْ بِذُنُوبِهِمْ ۚ وَنَطْبَعُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَکیا سبق نہیں ملا ان کو جو ملک کے وارث بنے ہیں اس کے اگلے باشندوں کے بعد کہ اگر ہم چاہیں تو ان کو ان کے گناہوں کی پاداش میں ابھی آ پکڑیں اور ان کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیں تو وہ سننے سمجھنے سے رہ جائیں
7.101 تِلْكَ الْقُرَىٰ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَائِهَا ۚ وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا بِمَا كَذَّبُوا مِنْ قَبْلُ ۚ كَذَٰلِكَ يَطْبَعُ اللَّـهُ عَلَىٰ قُلُوبِ الْكَافِرِينَیہ بستیاں ہیں جن کی سرگزشتوں کا کچھ حصہ ہم تمہیں سنا رہے ہیں۔ ان کے پاس ان کے رسول کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے تو وہ ایمان لانے والے نہ بنے بوجہ اس کے کہ وہ پہلے سے جھٹلاتے رہے تھے۔ اسی طرح اللہ ٹھپہ لگا دیا کرتا ہے کافروں کے دلوں پر۔
7.102 وَمَا وَجَدْنَا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ ۖ وَإِنْ وَجَدْنَا أَكْثَرَهُمْ لَفَاسِقِينَاور ہم نے ان میں سے اکثر میں عہد کی استواری نہیں پائی۔ ان میں سے اکثر بدعہد ہی نکلے۔
یہ دلوں پر مہر لگنے کا نتیجہ اور اثر بیان ہوا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی گروہ کے دلوں پر مہر کر دیا کرتا ہے تو ان کی مت اس طرح ماری جاتی ہے کہ کوئی نشانی بھی ان کو دکھاؤ وہ اپنی جگہ سے کھسکنے کا نام نہیں لیتے۔ باربار قسمیں کھا کھا کے عہد کریں گے کہ اگر فلاں معجزہ دکھا دو تو ہم مان لیں گے لیکن وہ معجزہ بھی دکھا دیا جائے تو پھر کسی نئے معجزے کا مطالبہ شروع کر دیں گے اور اپنے عہد سے پھر جائیں گے۔ لفظ ’فاسق‘ یہاں عہد شکن کے مفہوم میں ہے۔ یہی مضمون زیادہ وضاحت سے سورۂ انعام میں یوں بیان ہوا ہے۔
’وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَھْدَ اَیْمَانِھِمْ لَءِنْ جَآءَ تْھُمْ اٰیَۃٌ لَّیُؤْمِنُنَّ بِھَا قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰہِ وَمَا یُشْعِرُکُمْ اَنَّھَآ اِذَا جَآءَ تْ لَا یُؤْمِنُوْنَ ۵ وَنُقَلِّبُ اَفْءِدَتَھُمْ وَاَبْصَارَھُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِہٖٓ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّنَذَرُھُمْ فِیْ طُغْیَانِھِمْ یَعْمَھُوْنَ‘(۱۰۹۔۱۱۰)
(اور وہ بڑی پکی پکی قسمیں کھا کے یقین دلاتے ہیں کہ اگر کوئی معجزہ ان کو دکھایا جائے تو وہ ضرور اس پر ایمان لے آئیں گے۔ کہہ دو کہ معجزے تو اللہ ہی کے پاس ہیں۔ اور تمہیں کیا پتہ کہ اگر معجزہ بھی آ جائے گا جب بھی وہ ایمان لانے والے نہیں اور ہم ان کے دلوں اور ان کی بصیرتوں کو اسی طرح الٹ دیں گے جس طرح وہ پہلی بار ایمان نہیں لائے اور ان کی سرکشی میں ان کو بھٹکتا چھوڑ دیں گے)
آگے حضرت موسیٰ ؑ اور فرعون کی سرگزشت میں بھی یہی حقیقت ان الفاظ میں واضح کی گئی ہے۔
’وَلَمَّا وَقَعَ عَلَیْھِمُ الرِّجْزُ قَالُوْا یٰمُوْسَی ادْعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَھِدَ عِنْدَکَ لَءِنْ کَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَکَ وَلَنُرْسِلَنَّ مَعَکَ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ ۵ فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْھُمُ الرِّجْزَ اِآٰی اَجَلٍ ھُمْ بٰلِغُوْہُ اِذَا ھُمْ یَنْکُثُوْنَ‘(۱۳۴۔۱۳۵)
(جب ان پر کوئی آفت آتی وہ کہتے، اے موسیٰ، ہمارے واسطے اپنے رب سے، اس وعدے کی بنا پر جو اس نے تم سے کر رکھا ہے، دعا کرو۔ اگر تم نے یہ بلا ہمارے سر سے ٹال دی تو ہم تمہاری بات ضرور مان لیں گے اور بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ جانے دیں گے۔ پھر جب ہم اس آفت کو کچھ دیر کے لیے، جس تک لازماً ان کو پہنچنا ہوتا، ٹال دیتے تو وہ دفعۃً اپنا عہد توڑ دیتے)